مقبول بٹ، تشدد یا عدم تشدد کاہیرو؟

ریاض مسرور 
بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر      

گیارہ فروری اُنیس سو چوراسی کو بھارت کی تہاڑ جیل میں پھانسی پانے والے کشمیری رہنما محمد مقبول بٹ کی پچیسویں برسی پر کشمیر        کے علیحدگی پسند حلقوں میں ان کے سیاسی نظریات پر بحث چھِڑ گئی ہے۔

مقبول بٹ کی پہچان یوں تو ایک گوریلا لیڈر کی ہے لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران پاکستان میں حالات کی تبدیلی اور کشمیریوں کی بندوق       سے کنارہ کشی کے بعد جدوجہد کے ’مقبول بٹ ماڈل‘ پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔

ان کے بعض ساتھی ان کی سوچ کو آج بھی موزوں سمجھتے ہیں جب کہ ان کے چند ایک معاصرین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی تشدد کے قائل نہیں       تھے۔

 

مختصر تعارف
مقبول بٹ شمالی کشمیر میں کپواڑہ ضلع کے پسماندہ گاؤں ترہگام سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اُنیس سو سینتالیس میں تقسیم ہند کے دوران جموں کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور اُنیس سو باسٹھ میں ہند۔چین جنگ کےدوران انہوں نے پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں آزادی پسند حلقوں کے ساتھ مراسم پیدا کیے اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔

                             
      
بھارت سے آزادی کے ترجمان
      
 مسئلہ یہ نہیں کہ مقبول بٹ کو بندوق کی علامت سمجھا جائے یا پھر عدم تشدد کی نشانی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھارت سے آزادی لینے کے یہاں کے اجتماعی جذبہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انہیں کسی نظریہ میں محدود کرنا زیادتی ہوگی۔ وہ خودمختار کشمیر کے قائل تو تھے، لیکن انہوں نے اپنی تحریک یہاں کے پاکستان نواز حلقوں کی مشاورت سے شروع کی تھی
      
      
 
      
غلام قادر لون
      

بھارتی پولیس کے مطابق اُنیس سو اکہتّر میں بھارتی فضائیہ کےگنگا نامی طیارے کے اغوا میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ اُنیس سو چھیاسٹھ میں وہ سیزفائرلائن (اُسوقت تک اسے کنٹرول لائن نہیں کہا جاتا تھا) عبور کر کے کشمیر چلے آئے۔ یہاں بھارتی فورسز کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی جس میں ان کا ساتھی طاہر اورنگزیب مارا گیا۔ بعدازاں وہ دوبارہ پاکستان چلےگئے اور سن اُنیس سو چھہتر میں ایک بار پھر وہ کشمیر واپس آ ئے اور یہاں وہ بینک لوٹنے کے الزام میں جیل گئے۔ اس دوران لندن میں بھارتی سفیر رویندر مہاترے کا قتل ہوا اور بالآخر گیارہ فروری اُنیس سو چوراسی کو مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

مقبول کیا چاہتے تھے؟
مقبول کے قریبی ساتھی اور سابق مسلح کمانڈر محمد اعظم انقلابی کہتے ہیں کہ ’مقبول بٹ تو سن اُنیس سو چھیاسٹھ میں ہی کشمیر جدوجہد کے پہلے گوریلا لیڈر کی حیثیت سے وادی میں وارد ہوئے۔ یہاں محض ایک عسکری کارروائی کے بعد وہ اُنیس سو اڑسٹھ میں دوبارہ پاکستان چلے گئے جہاں مظفرآباد قلعہ میں پاکستانی حکام نے ان پر جسمانی اور نفسیاتی ٹارچر کیا۔‘

انقلابی کے مطابق اُنیس سو چھہتر میں جب مقبول دوبارہ ایک گوریلا لیڈر کی حیثیت سے کشمیر آئے تو یہاں بینک لوٹنے کی کارروائی کے       دوران بینک منیجر کی موت ہوئی۔

                                              
      
      
اعظم انقلابی کے مطابق مقبول بٹ کشمیرمیں پہلےگوریلا جنگجوتھے

لیکن گنگا طیارہ ہائی جیکنگ سے جُڑے ایک اور لبریشن فرنٹ رہنما ہاشم قریشی کہتے ہیں: ’مقبول تو امن پسند تھے۔ انہوں نےکب کسی کو       قتل کیا۔ جو بھی ہوا ان کے ساتھیوں نے کیا۔ وہ تشدد کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کا فلسفہ ہی الگ تھا۔‘

دیرینہ علیحدگی پسند کارکن اور پیپلز لیگ کے رہنما غلام محمد خان سوپوری کہتے ہیں کہ سن اُنیس سو پچھہتر میں جب بائیس سال تک رائے شماری کی تحریک چلانے والے شیخ محمد عبداللہ نے اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ ’الحاق‘ کیا اور کشمیر کے وزیراعلیٰ بن گئے تو مقبول بٹ سن اُنیس سو چھہتر میں ہندمخالف مسلح تحریک کا منصوبہ لے کر کشمیر آئے۔

سوپوری کہتے ہیں کہ ’اس حوالے سے پہلا اجلاس سوپور میں میرے گھر پر ہوا۔ اس میں فضل الحق قریشی، شبیر شاہ اور دیگر رہنما بھی تھے۔ مقبول چاہتے تھے کہ یہاں مسلح تحریک کا باقاعدہ آغاز ہو۔ میں نے خود دیکھا وہ ہتھیار بند تھے، اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھی ہتھیار تھے۔ لیکن ہم نے بینک لوٹنے کے منصوبے پر ان کے ساتھ اختلاف کیا، مگر وہ مالی تنگی کے بھی شکار تھے۔‘

قابل ذکر ہے کہ مقبول بٹ کو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سبھی دھڑے اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔ ان میں محمد یٰسین ملک، امان اللہ خان اور فاروق صدیقی کے دھڑے ہیں۔ سبھی گروپ فی الوقت پُرامن جدجہد کے قائل ہیں۔ یٰسین ملک نے وادی میں مختلف مسلح گروپوں کے درمیان گروہی تصادموں میں خون خرابہ کے بعد اُنیس سو چورانوے میں بھارت کے خلاف یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

تاریخ کے استاد غلام قادر لون کہتے ہیں کہ ’مسئلہ یہ نہیں کہ مقبول بٹ کو بندوق کی علامت سمجھا جائے یا پھر عدم تشدد کی نشانی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھارت سے آزادی لینے کے لیے یہاں کے اجتماعی جذبہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انہیں کسی نظریہ میں محدود کرنا زیادتی ہوگی۔ وہ خودمختار کشمیر کے قائل تو تھے، لیکن انہوں نے اپنی تحریک یہاں کے پاکستان نواز حلقوں کی مشاورت سے شروع کی تھی۔‘

پیپلز لیگ رہنما خان سوپوری کے مطابق مقبول بٹ نے مسلح جد و جہد کا منصوبہ اُس وقت کے وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ اور ان کے فرزند فاروق عبداللہ کے سامنے بھی رکھا۔ سوپوری کہتے ہیں: ’انہوں نے شیخ سے کہا کہ تم لوگ بدل کیوں گئے۔ لیکن شیخ اور اس کے بیٹے نے جواب میں کہا ہم اقتدار میں رہ کر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔‘

خان سوپوری سمجھتے ہیں کہ’بندوق کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ آج کے حالات دائمی نہیں ہیں۔ یہ تو وقتی ٹھہراؤ ہے۔ مقبول بٹ کا فلسفہ       صحیح ثابت ہوگا۔‘
لیکن ہاشم قریشی کہتے ہیں: ’مقبول بٹ کا ہی فلسفہ سچ ثابت ہو رہا ہے اور آج ہماری عدم تشدد پالیسی سے ساری دُنیا کشمیر کی طرف       متوجہ ہوئی ہے۔‘

سزائے موت
صوبے کے سابق نائب وزیراعلیٰ مظفرحُسین بیگ جو بھارتی سپریم کورٹ میں کئی دہائیوں تک وکالت کرتے رہے، نے بھی مقبول بٹ کیس کی پیروی کی تھی۔ سن اُنیس سو چوراسی میں جب کشمیری پنڈت جج مسٹرگجنو نے انہیں سزائے موت سنائی تو بیگ نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف اپیل کی تھی جس کے جواب میں انہیں بتایاگیا کہ رحم کی اپیل کا جواب آنے تک کچھ نہیں ہوسکتا۔ بیگ کہتے ہیں: ’جب رحم کی اپیل صدر ہند نے مسترد کردی تو ہم نے عدالت سے رجوع کیا لیکن اسی اثنا میں لندن میں رویندر مہاترے کا قتل ہوا اور مقبول کی پھانسی میں جلدی کی گئی۔‘

واضح رہے کہ مقبول بٹ کی لاش کو تہاڑ جیل کے احاطے میں ہی دفنایا گیا۔ ان کے باقیات کی واپسی کا مطالبہ یہاں کی علیحدگی پسند سیاست       کا ایک نعرہ بن چکا ہے۔

سن دوہزار دو میں سرکاری رازداری قانون کے ایک فرضی معاملے میں سات ماہ تک تہاڑ جیل میں نظربند رہ چکے سینئیر صحافی افتخار گیلانی نے بتایا کہ ’مقبول کی قبر کی کافی تعظیم ہوتی تھی۔ لیکن پارلیمنٹ حملے کے بعد نوعیت بدل گئی اور ان کی قبر پر کوئی ورکشاپ تعمیر کیا گیا ہے۔‘

مظفر بیگ کا کہنا ہے کہ مقبول بٹ کے باقیات کی واپسی کا مطالبہ چونکہ سیاسی ہے لہٰذا حکومت ہند اسے قبول نہیں کرے گی، اگر مقبول       کے لواحقین کی طرف سے یہ کیس لڑا جائے تو کچھ ہوسکتا ہے۔

مقبول کے قریبی رشتہ دار پرویز بٹ نے چند سال قبل ’مقبول فاونڈیشن‘ نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا اور اسی کے تحت ان کے باقیات       کی واپسی کی جد و جہد شروع کی تھی، لیکن بعد ازاں وہ سرکاری ملازم ہوگئے۔ کافی کاوشوں کے باوجود ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔

علیحدگی پسندوں نے گیارہ فروری کو یوم سیاہ کے طور منانے اور اس روز مکمل ہڑتال کرنے کی کال دے دی ہے۔